EN हिंदी
بڑے شہر کا خواب | شیح شیری
baDe shahar ka KHwab

نظم

بڑے شہر کا خواب

پرویز شہریار

;

بڑا شہر بڑا شہر، بڑا شہر بڑا شہر
کسی کے لیے تو باعث طمانیت

کسی کے لیے تو سامان مسرت
اور کسی کے لیے ہے تو، سراسر قہر

بڑے شہر کی چاہ میں، جانے کتنے تباہ ہوئے
کتنے روٹھے اپنوں سے

کتنے چھوٹے ہم وطنوں سے
لمحہ لمحہ الجھتے رہے

سچے جھوٹے سپنوں سے
بڑے شہر کا خواب لیے، ہر پل نیا عذاب لیے

بھاگتے رہے تمام عمر، پیش نظر سراب لیے
لا حاصلی کا خواب لیے

گھوڑے کے آگے گھاس ہو جیسے
ہر سانس نئی آس ہو جیسے

جینے کی امنگ میں
مرتے رہے، مرتے رہے

جنت پاؤں کی چھوڑ کے، ٹھنڈک گاؤں کی چھوڑ کے
روح جلتی رہی تمام عمر، بدن کی چتا میں

زندگی عذاب لیے
بڑے شہر کا خواب لیے

جلتے رہے تپتے رہے، بڑے بننے کے فراق میں
شارٹ کٹ لیتے رہے

راتوں رات، امیر بننے کی تاک میں
ہم چلتے رہے، چلتے رہے

بڑے شہر کی چاہ میں، جانے کیسے کیسے گناہ کیے
یہاں تک کہ آنکھیں ہماری پتھرا گئیں، پاؤں ہمارے شل ہوئے

انسانیت ہم سے چھن گئی، ہم درندوں کے مثل ہوئے
خوشیوں کی تلاش میں، ہم جیتے جی لاش ہوئے

اس قدر بے حس و بد حواس ہوئے، ہم خود سے ہی اداس ہوئے
بڑا شہر بڑا شہر، بڑا شہر بڑا شہر

بے ایمانیوں کی ڈگر، بد عنوانیوں کا نگر
سچ ہے تیری چاہ میں، جانے کتنے تباہ ہوئے

سارا گاؤں اپنوں سے خالی ہو گیا
ماتمی فضا میں، اب ہر طرف حسرت و یاس ہے

پھر بھی بڑے شہر کی پیاس ہے کہ کبھی بجھتی نہیں
ایک خلقت ہے کہ کبھی رکتی نہیں!

ایک ہجرت ہے کہ کبھی رکتی نہیں!
زندگی کسی سے ہار جائے، یہ کبھی ممکن نہیں

زندگی کسی سے مات کھائے، یہ بھی اب ممکن نہیں
زندگی رکتی نہیں!!

زندگی جھکتی نہیں!!