EN हिंदी
بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا | شیح شیری
badalne ka koi mausam nahin hota

نظم

بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا

عین تابش

;

چلے تھے لوگ جب گھر سے
تو اک وعدے کی تختی اپنی پیشانی پر

رکھ کر لائے تھے
جس کی گواہی میں

سفر کو آگے بڑھنا تھا
اور اس کے ساتھ

خوابوں خواہشوں کے نام
اس ویران گھر کو آگے بڑھنا تھا

تو اک وعدے کی تختی تھی
بہت دن تک جو روشن تھی سرابوں میں

پرانی داستانیں جاگتی تازہ نصابوں میں
بہت دن تک ہوا میں صندلی خوشبو مہکتی تھی

سفر میں چاندنی گھر کی چھٹکتی تھی
چلے تھے لوگ جب گھر سے

بہت مانوس تھے
ہر گمشدہ ویران منظر سے

چلے تھے لوگ جب گھر سے
پرانی بات لگتی ہے

بہت سی کڑیاں جیسے بیچ سے
اب ٹوٹتی جاتی ہیں

رتیں گزریں ہوئی اب ہاتھ سے
یوں چھوٹتی جاتی ہیں

جیسے آیتیں بجھنے لگی ہوں
سیل ظلمت میں

وہ اک وعدے کی تختی گم ہوئی
طوفان حیرت میں

بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت دن جب بدلنے میں گزر جاتے ہیں

کچھ بدلے ہوئے کا غم نہیں ہوتا