بڑا پر ہول رستہ تھا
بدن کے جوہر خفتہ میں کوئی قوت لاہوت مدغم تھی
کسی غول بیابانی کی گردش میرے دست و پا کی محرم تھی
دہان جاں سے خارج ہونے والی بھاپ میں تھے سالمات درد روشن
گزر گاہوں کے سب نا معتبر پتھر
خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے
پہاڑ اور آئنے سائے کرے پیڑوں کے پتے
پانیوں کی گول لہریں
رات کی لا علم چیزیں
شش جہت کے سب عناصر زور سے پیچھے ہٹے تھے
اور میں آگے ہزاروں کوس آگے بڑھ گیا تھا
اک عجب رفتار میری آگ میں تھی
کس قدر پر ہول رستہ تھا
پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے
زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کر کے ساتوں آسماں آئے
مسلسل چل رہا تھا میں
ہوا میں ڈھل رہا تھا میں
مساموں سے شعاع بے نہایت پھوٹی پڑتی تھی
ابد کا اک جڑاؤ تاج میرے سر پہ رکھا تھا
بڑا پر ہول رستہ تھا
کوئی برق شباہت آرزو بردار میری آگ میں تھی
اک عجب رفتار میری آگ میں تھی
نظم
بڑا پر ہول رستہ تھا
رفیق سندیلوی