بچپن کی آنکھیں
سڑک کے کنارے کھڑی
روتی ہیں
سراسیمگی کے عالم میں
اپنے جوتے اور چپلیں چھوڑ کر
بھاگنے والوں کی دہشت اور حیرانیاں
ان میں سرایت کر چکی ہیں
بچپن کی آنکھیں
حیران ہیں
کہ گھروں کو آگ لگانے والوں
اور ان کے اندر پھنسے ہوئے
خوف زدہ لوگوں کا
درمیانی رشتہ
ان کی سمجھ میں نہیں آتا
انہیں معلوم نہیں
کہ تانگے سے گھسیٹ کر
گلی میں لے جائی جانے والی عورتوں کے ساتھ
کیا سلوک کیا گیا
چھجے پر کھڑا ہوا بوڑھا
کس کی بندوق کی گولی کھا کر گرا
بوٹوں تلے روندے جانے والے جسم
کن لوگوں کے تھے
بچپن کی آنکھیں
سڑک کے کنارے کھڑی روتی ہیں
کہ انہوں نے جو کچھ دیکھا
وہ بے معنی ہے
بچپن کی گواہی
عدالت میں تسلیم نہیں کی جاتی
نظم
بچپن کی آنکھیں
صادق