غبارے ستارے
گلابی شرابی کھلے پرچموں کے شرارے اڑاتے
ہزاروں کی تعداد میں وہ گھروں سے اسکولوں سے آئے
دہکتے ہوئے گال اڑتے ہوئے بال
جسموں کے موتی
وہ شبنم تھے لیکن
بدلتے گئے گرم لاوے میں پیہم
وہ بہتے گئے موج در موج ہر رہ گزر پر
فلک بوس نعروں سے اپنے وطن کے نئے یا پرانے
چلے وہ بڑھے وہ
سبھی مشتہر دشمنوں کو مٹانے
مگر شوخ چہروں کے اس کارواں میں
تصور میں بنتے سنورتے ہوئے سورماؤں سے ہٹ کر
خدا جانے کیسے کہاں سے وہ آیا
وہ ننھا سا معصوم بالک
جو خاموش حیراں پریشاں
غباروں شراروں فلک بوس نعروں
کے بے رحم دریا میں بہتا لڑھکتا چلا جا رہا تھا
اسے کون پہچانتا جب تماشائیوں کی صفوں میں
اسے دیکھنے والا کوئی نہیں تھا
نظم
بچوں کا جلوس
بلراج کومل