ببول کے درخت سے کہو
ابھی مشام جاں میں ہر سنگھار کی شگفتگی
بڑے ہی انہماک سے بہار پاش ہے یہاں
جو مڑ کے دیکھتا ہوں ادھ جلے گلاب کا بدن
شہادتوں کے رمز پر سنگھار بھی لٹا گیا
جو مڑ کے دیکھتا ہوں فاختہ کا احمریں لہو
جبین جور کی سبھی رعونتیں مٹا گیا
مرے خلاف سازشوں کا یہ مہیب سلسلہ
مری انا کے بانکپن میں دفعتاً سما گیا
چنار کے درخت سے ہے ناریل کے پیڑ تک
رواں دواں ہماری خوشبوؤں کا شوخ سلسلہ
کبوتروں کے غول کی پھبن ہرن کی چوکڑی
ہوا کے دوش مرغ زار کو دلہن بنا گئی
ابھی مری زمین کی فضائیں صبح فام ہیں
دھویں کے ناگ سے کہو
بڑی ہی سخت جان ہیں ہماری وادیوں میں رنگ و نور کی لطافتیں
سمندروں کی سیپیوں سے پوکھروں کی گھونگھیوں نے
بیعتوں کے واسطے سپرد کب کیا ہے غیرتوں کے لالہ زار کو
ابھی حصار سنگ میں کنول کے پھول ہیں کھلے
زبان ریگ سرخ سے کہو
ہمارے پاؤں جل گئے تو کیا ہوا
بہار سبز کے لئے زمیں تو آج مل گئی
نظم
ببول کے درخت سے کہو
عنبر بہرائچی