EN हिंदी
بازی جن کے ہاتھ رہی | شیح شیری
bazi jin ke hath rahi

نظم

بازی جن کے ہاتھ رہی

نسرین انجم بھٹی

;

جتنی دیر میں تم ایک آہٹ سے اترتے ہو
اور سویر سے اپنی پلکیں اکٹھی کرتے ہو

اتنی دیر میں ایک نظم بن چکی ہوتی ہے
نظم جس کی آنکھوں سے لوبان کی خوشبو اور پلکوں

سے نم ٹپکتا ہو
اور وہ اپنی پہچان کے لئے خود اپنا وسیلہ بنے

لیکن اگر اس کے بعد کے وسیلے زیادہ معتبر ٹھہریں
تو حیرتیں افسوس اور پچھتاوے رد دعا

جب محبتیں انسان سے کم تر حوالوں کی محتاج ہو جائیں
تو وہ سیڑھیاں اتر جاتی ہیں آسمان نہیں رہتیں

زمین کا حوالہ محبت ہے
اور وہ جانور زیادہ اچھی طرح نبھا سکتے ہیں

بہت قدیم سے کیا کوؤں نے نہیں بتایا کہ اپنا جرم
اور اپنی آخرت کو مٹی سے پردہ پوش کرو

اور کیا کتے اعتبار کی آخری حد نہیں ہیں
جو کہتے ہیں میرے محبوب سو جا! میں ہوں نا

میں ہوں نا!
زلزلوں کی خبر دینے کے لیے

میں تیری مصیبت زدہ نسل کو کہیں سے بھی ڈھونڈ لاؤں گا
اگر تیری محبت کی نشانیاں ان کے ہاتھوں کی انگلیوں میں نہ بھی ملیں

وہ تجھے ضرور مل جائیں گے
ان کے ہاتھ اور بازو تیرے بھائی بندوں نے کاٹ لیے

لیکن میں اپنے منہ کا نوالا انہیں دے کر ہی لوٹوں گا
میں مصیبت کے سب دنوں میں تیرے ساتھ ہوں

میں سگ در ہوں مری تجھ سے سگائی ہے!