EN हिंदी
باز دید | شیح شیری
baz-did

نظم

باز دید

منیب الرحمن

;

تم جو آؤ تو دھندلکے میں لپٹ کر آؤ
پھر وہی کیف سر شام لیے

جب لرزتے ہیں صداؤں کے سمٹتے سائے
اور آنکھیں خلش حسرت ناکام لیے

ہر گزرتے ہوئے لمحے کو تکا کرتی ہیں
خود فریبی سے ہم آغوش رہا کرتی ہیں

تم جو آؤ تو اندھیرے میں لپٹ کر آؤ
شبنمی شیشوں کو سہلائیں لچکتی شاخیں

اور مہتاب زمستاں کوئی پیغام لیے
یوں چلا آئے کہ در باز نہ ہو

کوئی آواز نہ ہو
تم جو آؤ تو اجالے میں لپٹ کر آؤ

پھر وہی لذت انجام لیے
جب تمنائیں کسی خوف سے چیخ اٹھتی ہیں

اور خاموشیٔ لب سیکڑوں ابہام لیے
ایک سنگین حقیقت میں بدل جاتی ہے

زندگی درد میں ڈھل جاتی ہے