EN हिंदी
باتیں پاگل ہو جاتی ہیں | شیح شیری
baaten pagal ho jati hain

نظم

باتیں پاگل ہو جاتی ہیں

انوار فطرت

;

میری بند گلی کے سارے گھر
کتنے عجیب سے لگتے ہیں

محرابی دروازے
جیسے مالیخولیا کی بیماری میں

دھیرے دھیرے مرتے شخص کی
کیچ بھری آنکھیں ہوں

آگے بڑھی ہوئی بلکونیاں
جیسے احمق اور ہونق لوگوں کی

لٹکی ہوئی تھوڑیاں ہوتی ہیں
اک دوجے میں الجھے

بیٹھک آنگن سونے والے کمرے
اور رسوئیاں

سارا یوں لگتا ہے
جیسے اک پاگل کی گنجل سوچیں ہوں

ان کے اندر رہنے والے
جیسے

میں بھی کیا پاگل ہوں
کیا کیا سوچتا رہتا ہوں