EN हिंदी
بارش دیکھتی ہے | شیح شیری
barish dekhti hai

نظم

بارش دیکھتی ہے

نسرین انجم بھٹی

;

بارش دیکھتی ہے کہ اسے کہاں برسنا ہے
اور دھوپ جانتی ہے کہ اسے کہاں نہیں جانا

مگر وہ جاتی ہے اور شکار ہوتی ہے
اور کانٹوں میں پھنس کر بٹ جاتی ہے

اور ریت کے ذروں کی طرح
زمین سے اٹھائی نہیں جاتی

رات سمجھتی ہے اور سمجھ کر خاموش رہتی ہے
صرف اپنے کونوں پر گرہیں لگاتی رہتی ہے

اور کہتی ہے
آ مل ڈھولن یار کدی

کیدارے کے تانے بانے میں
دیکھ تو میں نے کیا بنا ہے

ایک پھولبن! ایک راس بن
اور اب

دھارے دھارے چلی جاتی ہوں میں
بن بیچ اتروں، کانٹے رنگ دوں؟

دھارے دھارے بہی جاتی ہوں
اور بھید نہیں پاتی ہوں

نہ پل چھن کا
نہ یگوں یگوں کے انتر کا

تم سندر گیانی شانت ہوئے
موہے اپنی سیت کرو سوامی

سب چڑیاں اک سنگ بولتی ہیں
موہے اپنی سیت کرو سوامی اور دور کہیں اڑ جاتی ہیں

میں اپنے ہر اک کونے پر چالیس گرہیں لگواتی ہوں
تن جونک جونک ڈسواتی ہوں

اور دھوپ کو یہ معلوم نہیں
کب مجھ پر سایہ کرنا ہے! کب مجھ کو روشن کرنا ہے

کب میری خاک اڑانی ہے
کب میرے انگ انگ بھرنا ہے

میں گٹھری گیلے کپڑوں کی
کس گھاٹ مجھے اب دھرنا ہے!