اندھیرے میں چلا ہے کاروان بے جرس کوئی
بلند و پست کوئی ہے نہ اس کا پیش و پس کوئی
فقط آواز پائے رہرواں ہے ہم سفر اپنی
شریک کارواں کتنے ہیں کتنے ہم سفر ہیں کون رہبر کون رہزن ہے
کہاں پر کون ہے کس کنج میں کس کا بسیرا ہے
خدا جانے یہاں تو بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے
کچھ آوازیں ہیں
آوازوں کے دیکھو جسم بھی ہیں پیرہن بھی ہیں
انہیں میں تم بھی ہو میں بھی
میں کیا ہوں تم مری آواز کا چہرہ بنا کر دیکھ لو
یہی میں کر رہا ہوں سب یہی کرتے ہیں
یہ کیسے بتاؤں چل رہا ہوں کب سے
میری ابتدا ظلمت ہے تم چاہو تو اس کو انتہا کہہ لو
تعین سمت کا کیسے ہو کیا تعدید ساعت ہو
اب ایسے میں بتاؤ کیسے تحدید مسافت ہو
چلو چلتے رہو
کوئی آواز کیوں آتی نہیں
مردوں پہ شاید چل رہے ہیں ہم
یہاں رکنے سے پہلے سوچ لو
کچھ آہٹیں پیچھے بھی ہیں اپنے
وہ ہم کو روند جائیں گی
چلو چلتے رہو
کوئی ٹانکا کہیں ٹوٹا ہے سناٹے کے ہونٹوں کا
یہ کوئی چیخ ہے سمجھو کہیں پر مر گیا کوئی
کسی افتادہ دل پر پاؤں شاید دھر گیا کوئی
چلو چلتے رہو
کوئی سورج کسی کی آستیں سے پھر ہمیں آواز دیتا ہے
اور اس آواز سے حد نظر تک روشنی سی ہے
کوئی سورج کوئی مشعل
کوئی جگنو کوئی تارا
کوئی آواز کوئی چیخ
کچھ بھی ہو سبھی مرتے ہیں
لیکن مرتے مرتے روشنی کی گونج بن جاتے ہیں
آؤ گونج سے جھڑتے شراروں کو سمیٹیں
ان کے ریشم سے ملائم تیر سینوں میں چھپا لیں
زخم کر لیں دل کو
اور پھر زخم سے گل گل سے نغموں کی لویں مانگیں
پھر ان کو جب تلک چلنا ہے کوئی نام دے لیں
خواب کہہ لیں یا حقیقت
یہ سفر ہے اور اندھیرا مستقل ہے
اپنی آوازوں کو اپنا ہم سفر کر لیں
چلو چلتے رہو
وہ رہرو سانس جس کی چھو رہی ہے میری آہٹ کو
نہیں وہ تم نہیں ہو
میری پرچھائیں ہے
تم بھی اپنی پرچھائیں کوئی تخلیق کر لو
کارواں تم بھی ہو اور میں بھی
ہم اپنی اپنی ظلمت اپنی اپنی روشنی خود ہیں
لٹے جتنا کوئی اس کے لیے اتنا اندھیرا ہے!
نظم
باقیست شب فتنہ
عزیز قیسی