EN हिंदी
باقی دائرے خالی ہیں | شیح شیری
baqi daere Khaali hain

نظم

باقی دائرے خالی ہیں

جمیل الرحمن

;

رنگوں اور خوشبوؤں کی تخلیق سے پہلے
مرنے والے لمحے کی نم آنکھوں سے

آئندہ کے خوابوں کی عریانی کا دکھ جھانک رہا تھا
خط شعور سے آج اگر ہم

اس لمحے کی سمت کبھی دیکھیں تو روح میں جاگتی
گیلی مٹی کی آواز سنائی دیتی ہے

یہ دنیا تو مٹے ہوئے اس دائرے کی صورت کا عکس ہے
جس میں سوچوں آنکھوں اور حرفوں کے لاکھوں دائرے لرزاں ہیں

چاروں جانب خوشبوؤں کے آنگن میں جلتے ہوئے رنگوں کی لہریں
ہوا کی ڈور سے بندھی ہوئی ایسی کٹھپتلیاں ہیں

جو اپنے جنم کی ساعت سے اس پل تک
چپ کی لے پر ناچ رہی ہیں

جانے کب سے عریاں خوابوں کا پیراہن پہنے
آتے جاتے لمحوں پر چلاتی ہیں

دیکھو غور سے دیکھو
یہ عریانی مخفی اور ظاہر میں زندہ رابطے کی خاطر

اپنی اصل کی جانب جھکتے انسانوں کے
وصل طلب جذبوں کی طرح سوالی ہیں

باقی دائرے خالی ہیں