EN हिंदी
باکرہ | شیح شیری
bakira

نظم

باکرہ

ساقی فاروقی

;

۔۔۔۔اور چادر پر شب باشی کا زندہ لہو تھا
اس نے اٹھ کے انگڑائی لی

آئینے میں چہرہ دیکھا
سرشاری میں اطمینان کی ٹھنڈی سانس لی

اس کی تھکی ہوئی آنکھوں میں
دیوانی مغرور چمک تھی

فتح کے نشے سے پلکیں بوجھل تھیں
اس نے سوچا ہائیڈ پارک میں

جو لڑکی اک جاسوسی ناول میں ڈوبی
اسے ملی تھی

وہ تو جیسے فاختہ نکلی
اس نے اپنی سیکس اپیل کا کمپا مار کے

رام کیا تھا
اس کی لچھے دار انوکھی باتیں سن کر

اس کے ساتھ چلی آئی تھی
صبح سویرے

چائے بنا کر
بوسہ دے کر

چلی گئی تھی
وہ تو سچ مچ باکرہ نکلی

(ورنہ سولہ سترہ برس کی لڑکی حرافہ ہوتی ہے)
اس نے سوچا

اس نے شب بھر
بند کلی پر

اک زنبوری رقص کیا تھا
اور چادر پر اتنا لہو تھا

جیسے جنگ عظیم
اسی بستر پر لڑی گئی تھی

اس نے اپنی مونچھوں کے گچھے میں
اپنی ہنسی دبائی

ایک خیال سے
آنکھوں میں سایہ لہرایا

سر چکرایا۔۔۔۔
یہ تو اس کی مہواری کا مردہ لہو تھا

جو چادر پر پھیل گیا تھا