EN हिंदी
باکرہ | شیح شیری
bakira

نظم

باکرہ

فہمیدہ ریاض

;

آسماں تپتے ہوئے لوہے کی مانند سفید
ریگ سوکھی ہوئی پیاسے کی زباں کی مانند

پیاس حلقوم میں ہے جسم میں ہے جان میں ہے
سر بہ زانو ہوں جھلستے ہوئے ریگستاں میں

تیری سرکار میں لے آئی ہوں یہ وحش ذبیح!
مجھ پہ لازم تھی جو قربانی وہ میں نے کر دی

اس کی ابلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک
اور سیہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک

تیرا فرمان یہ تھا اس پہ کوئی داغ نہ ہو
سو یہ بے عیب اچھوتا بھی تھا ان دیکھا بھی

بے کراں ریگ میں سب گرم لہو جذب ہوا
دیکھ چادر پہ مری ثبت ہے اس کا دھبا

اے خدا وند کبیر
اے جبار!

متکبر و جلیل!
ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے

اب کوئی پارۂ ابر آئے کہیں سایہ ہو
اے خدا وند عظیم

باد تسکیں! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے!
قطرۂ آب کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے