EN हिंदी
بادبان | شیح شیری
baadban

نظم

بادبان

کمال احمد صدیقی

;

سمندروں کی نیلگوں فضائے آب میں بھی رقص کر چکا ہوں بارہا
مرے لیے کوئی افق یہ آسماں کی وسعتیں بھی اجنبی نہیں

میں ان میں سیکڑوں، ہزاروں زندگی کے گیت آتشیں دھنوں میں گا چکا
کسی کو ڈھونڈ ہی رہا تھا، کون جانے کس کو ڈھونڈھتا تھا میں

ہزار بار ڈھونڈھتا رہا ہوں جس کو موسموں کے مد و جزر میں مگر نہ پا سکا
ستارے ڈوبنے لگے اور آندھیوں کی شدتیں حباب بن کے رہ گئیں

کسی کو ڈھونڈ ہی رہا تھا میں سحر کی نرم نرم شبنمیں فضاؤں میں
کہ آپ آ گئیں، اور آ کے چھا گئیں سمندر اور آسماں کی بے کراں خلاؤں میں

ہزاروں داستانیں بحر نیلگوں کی چشم ناز میں لیے ہوئے
ہزاروں مہر و ماہ کی تجلیوں کا جسم آئینہ بنا ہوا

میں سوچ ہی رہا تھا، لہریں نبض کائنات تو نہیں
کہ ایک لہر اٹھی جس کی برہمی کے سامنے مری تمام قوتیں حباب بن کے رہ گئیں

کنار آب ایک پل میں دیکھتے ہی دیکھتے میں پھر پڑا ہوا تھا ریت پر
مرے بدن کی ریت کا ہر ایک ذرہ ایک آئینہ تھا

اور جانے کتنے آفتاب جگمگا رہے تھے میرے جسم پر
ہزار میں گناہ گار ہوں تو کیا

یہ میرا جسم خاک و خوں کا امتزاج ہی سہی
ہزار میں گناہگار ہوں تو کیا

یہ زلزلے یہ آندھیاں یہ برق و آتش و شرر مرے مزاج ہی سہی
مگر سکون پا کے جب بھی شادماں ہوا ہوں

گنگنا اٹھا ہوں مسکرا دیا ہوں
مرے اس آہنی محل کے آستاں پہ آسماں کی جنتیں بھی سجدہ ریز ہو گئیں

اگر نہیں ہیں ناریل کے سائے سطح آب پر تو کیا ہوا
مگر بہت ہی دور آ چکے ہیں ساحلوں کو چھوڑ کر

اٹھاؤ لنگر اور بادبان کھول دو
ہوائیں تیز ہیں تو کیا یہ لہریں شعلہ ریز ہیں تو کیا

اٹھاؤ لنگر اور بادبان کھول دو
میں جانتا ہوں خوب جانتا ہوں ایک کائنات اور بھی ہے

ماورائے کائنات
برس رہا ہے امرت آسماں سے چاندنی کے روپ میں

زمیں زمیں کی کائنات کے لیے نمو ہے دھوپ میں
مگر یہ برگ یہ ثمر یہ گلستاں بغیر رنگ کے تو کچھ نہیں

ستارے ڈوبنے لگے تو کیا
یہ لہریں شعلہ ریز ہیں تو کیا

اٹھو اور اٹھ کے کشتیوں کے بادبان کھول دو
یہ کون کہتا ہے کہ لہروں کا خدا کوئی نہیں

یہ لہریں خوب جانتی ہیں ساحلوں کا راستہ