EN हिंदी
بعد از خدا | شیح شیری
baad-az-KHuda

نظم

بعد از خدا

جاوید ناصر

;

چراغ ہے، کتاب ہے سوال ہے، جواب ہے
کہ آسماں منڈیر ہے کہ یہ زمیں بھی ڈھیر ہے

کسی کا کوئی نام ہے نہ زندگی مدام ہے
مگر وہ ایک شخص ہے جو دھوپ کی کگار ہے

جہاں کا اس پہ بار ہے
چلے چلو کہ وقت ہے، عذاب کتنا سخت ہے

مگر وہ کب زوال ہے، وہ موسموں کی شال ہے
پہن رہی ہے شام بھی بدل رہی ہے رات بھی کہ اگ رہا ہے آسماں کی دھل رہی ہے پھر سحر

چراغ ہے، کتاب ہے، سوال ہے، جواب ہے
مگر ہیں لوگ آج کل

نہ اس طرف نہ اس طرف نہ اس طرف نہ اس طرف