رات کے اندھیرے میں کتنے پاپ پلتے ہیں
پوچھتا پھرے کوئی کس سے کون پاپی ہے
پوچھنے سے کیا حاصل پوچھنے سے کیا ہوگا
محشر اک بپا ہوگا شور ناروا ہوگا
درد کم تو کیا ہوگا اور کچھ سوا ہوگا
کون کس کی سنتا ہے کس کو اتنی فرصت ہے
داد خواہ بننا بھی فعل بے فضیلت ہے
داد سم قاتل ہے مرنا کس کو بھاتا ہے
طور زندگی صاحب رات کا نرالا ہے
رات کے اندھیرے میں کتنے پاپ پلتے ہیں
کتنے سانپ پلتے ہیں چار سو اچھلتے ہیں
چھیڑئیے تو پھنکاریں چھوڑیئے تو ڈستے ہیں
ڈھیٹ بن کے پھرتے ہیں سانپ کس سے ڈرتے ہیں
لوگ ڈرتے پھرتے ہیں لوگ بچتے پھرتے ہیں
خامشی کے غاروں میں خامشی سے چھپتے ہیں
ایک دوسرے کا منہ بے بسی سے تکتے ہیں
شمع اک جلانے پر کیسی کیسی پابندی
نور پر بھی پابندی طور پر بھی پابندی
سو طرح کی پابندی شمع کیسے جل پائے
کس میں اتنی جرأت ہے موت سے الجھ جائے
یاس دل سے کہتی ہے مصلحت بڑی شے ہے
مصلحت اسی میں ہے قفل ڈالیے لب پر
جوش لاکھ بہلائے کچھ نہ لائیے لب پر
یاس ایک بڑھیا ہے تجربے سے کہتی ہے
لوگ قدر کرتے ہیں مصلحت اسی میں ہے
مصلحت پہ چلتے ہیں خیریت اسی میں ہے
رات بڑھتی جاتی ہے رات بڑھتی جاتی ہے
رات کے اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا
رات بڑھتی جاتی ہے ہوش بڑھتا جاتا ہے
درد بڑھتا جاتا ہے جوش بڑھتا جاتا ہے
رات کے اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا
تیرگی نظر میں ہے دل کا حال دل میں ہے
دل کے لاکھ گوشوں میں لاکھ شمعیں جلتی ہیں
مصلحت کی زنجیریں دم بدم پگھلتی ہیں
دم بدم خموشی سے رات کے اندھیرے میں
رات بڑھتی جاتی ہے رات کٹتی جاتی ہے
رات کے اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا
نظم
رات
داؤد غازی