EN हिंदी
ازل ۔ابد | شیح شیری
azal-abad

نظم

ازل ۔ابد

عزیز قیسی

;

اپنا تو ابد ہے کنج مرقد
جب جسم سپرد خاک ہو جائے

مرقد بھی نہیں وہ آخری سانس
جب قصۂ زیست پاک ہو جائے

وہ سانس نہیں شکست امید
جب دامن دل ہی چاک ہو جائے

امید نہیں بس ایک لمحہ
جو آتش غم سے خاک ہو جائے

ہستی کی ابد گہ قضا میں
کچھ فرق نہیں فنا بقا میں

خاکستر خواب شعلۂ خواب
یہ اپنا ازل ہے وہ ابد ہے

وہ شعلہ تو کب کا مر چکا ہے
یہ جسم اک نعش بے لحد ہے

مرتی ہے حیات لمحہ لمحہ
ہر سانس اک زندگی کی حد ہے

روحوں کو دوام دینے والو
جسموں کی سبیل کچھ نکالو

شعلہ کوئی مستعار دے دو
یا لاش کو اب مزار دے دو