تجھے چھو کر بہار آئی تھی
کنج غم میں برسا تھا
ترے آنے سے ساون
چاندنی چھٹکی تھی
پھولی تھی شفق
بولی تھی کوئل دیکھ کر تجھ کو
عمل یہ سانس لینے کا بہت آساں ہوا تھا
کھیل سا لگنے لگا تھا
آزمائش سے گزرنا
کارزار زیست میں، دن رات کرتا
اب۔۔۔ مگر
پھر ابتدا سے
کاوش پیہم میں
گھومے جا رہے ہیں
وقت کے پہیے
نئے تکلیف دہ آغاز سے ہم کو گزرنا پڑ رہا ہے پھر۔۔۔
نظم
از سر نو
ماہ طلعت زاہدی