EN हिंदी
ایودھیا! میں آ رہا ہوں | شیح شیری
ayodhya! main aa raha hun

نظم

ایودھیا! میں آ رہا ہوں

کمار پاشی

;

ایودھیا! آ رہا ہوں میں
میں تیری کوکھ سے جنما

تری گودی کا پالا ہوں
تری صدیوں پرانی سانولی مٹی میں کھیلا ہوں

مجھے معلوم ہے تو مجھ سے روٹھی ہے
مگر اب دور تجھ سے رہ نہیں سکتا

پرائے دیش میں گزری ہے جو مجھ پر
وہ خود سے بھی کبھی میں کہہ نہیں سکتا

ذرا سر تو اٹھا اور دیکھ
کتنی دور سے تجھ کو منانے آ رہا ہوں میں

تجھے تیرے ہی کچھ قصے سنانے آ رہا ہوں میں
ایودھیا! جانتا ہوں تیری مٹی میں اداسی ہے

نہ جانے کتنی صدیوں سے
مری بھی روح پیاسی ہے

کہ ہم دونوں کی قسمت میں خوشی تو بس ذرا سی ہے
بہت دن ہو گئے ہیں مجھ کو تیرے آسماں دیکھے

سنہری دھوپ دیکھے چمچاتی کہکشاں دیکھے
تری گلیاں ترے بازار اور تیرے مکاں دیکھے

وہ دن جو تجھ میں روشن تھے وہ برسوں سے کہاں دیکھے
بچھڑ کر تجھ سے جو منظر بھی دیکھے رائیگاں دیکھے

مگر ہاں یاد آیا
ایک منظر اور بھی محفوظ ہے مجھ میں

حویلی ایک چھوٹی سی اور اس میں نیم کے سائے
کہ جس میں آج بھی زندہ ہیں شاید میرے ماں جائے

اسی منظر کے پیچھے اور بھی دھندلے سے منظر ہیں
پرانی گم شدہ تہذیب کے گھر ہیں

جہاں خوابوں کی دنیا ہیں
جہاں یادوں کے دفتر ہیں

اندھیرے روبرو میرے
ستارے میرے اندر ہیں

کہیں رادھا کہیں سیتا کہیں بیاکل سی میرا ہے
کہیں پر کربلا ہے اور کہیں پر رام لیلا ہے

ترا میرا تو ان گنت جنموں کا قصہ ہے
کہ مجھ میں دور

صدیوں دور
گوتم اب بھی زندہ ہے

ہوا رک رک کے آتی ہے
جو گونجی تھیں ہزاروں سال پہلے

وہ صدائیں ساتھ لاتی ہے
مرے اندر جو میرے روپ ہیں

مجھ کو دکھاتی ہے
ایودھیا! میں ترے مرگھٹ کا باسی ہوں

مجھے تو جانتی ہوگی
مجھے معلوم ہے مجھ کو

مرے ہر نام سے پہچانتی ہوگی
اجڑ کر رہ گیا جو میں وہ میلہ ہوں

بھرا سنسار ہے پھر بھی اکیلا ہوں
تری مٹی سے جاگا ہوں

تری مٹی میں کھیلا ہوں
تری مٹی کو پہنا ہے

تری مٹی کو اوڑھا ہے
بہت جی چاہتا ہے اب تری مٹی میں کھو جاؤں

کئی صدیوں کا جاگا ہوں
تری مٹی میں سو جاؤں

ایودھیا! میرا باہر کربلا ہے
اندروں میرا کپل وستو ہے، مکہ ہے مدینہ ہے

مجھے تیرے پرانے اور روشن دن میں جینا ہے
بدن پر ہے ترا بخشا ہوا یہ کیسری بانا

ہے بھکشا پتر ہاتھوں میں
سفر میرا ہے اب تاریک راتوں میں

ایودھیا! سر اٹھا
اور دیکھ لے مجھ کو

تھکے قدموں سے اب تیری ہی جانب آ رہا ہوں میں
سفر تاریک ہے

پگ پگ پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں میں
مجھے آواز دے گھبرا رہا ہوں میں

تری خاطر جو برسوں سے چھپا رکھا ہے دل میں
وہ اجالا لا رہا ہوں میں

ایودھیا!
آ رہا ہوں میں