ایاز چپ ہے
صدائے محمود حرب تازہ کی تیز تر رو میں
بہہ گئی ہے
ایاز چپ ہے
ایاز چپ ہے کہ اب اسیران شب بھی
خوابیدہ عکس لے کر
تھکی تھکی خواہشوں کے سینوں پہ سو گئے ہیں
وہ دن کہ جس دن
جلے ہوئے طاقچوں پہ حرفوں کی بے کفن لاش
دفن ہوگی
وہ دن کلینڈر کی سبز تہ سے سرک گیا ہے
ایاز چپ ہے
لٹی ہوئی بستیوں میں تاریخ کا پڑاؤ
صفوں میں ترتیب ڈھونڈھتا ہے
لہو کی حدت میں منقسم صبح کم نصبیاں کا گرم سورج
ہزار ہا گرہیں کھولتا ہے
تو شہر کہسار کے جلو میں قدیم شاہراہ پوچھتی ہے
ایاز چپ ہے کہ بولتا ہے
ایاز چپ ہے
صدائے محمود حرب تازہ کی تیز تر رو میں بہہ گئی ہے
نظم
ایاز چپ ہے
فرخ یار