جانے کیا بات ہے کیوں نیند نہیں آتی ہے
رات بوجھل ہے ستاروں کی نظر بیٹھی ہوئی
شب کے خاموش مناظر ہیں عجب خوف زدہ
بے اماں جانے کسے ڈھونڈھنے کی ضد میں عبث
دور افق پار کہیں دور نکل جاتی ہے
صبح اٹھتی ہے تو بچپن کی امنگیں لے کر
آج آئے گا کوئی رات گئی بات گئی
دن گزرتا ہے کسی آس کے پہلو میں رواں
خلوتیں محفل رنگین میں ڈھل جاتی ہیں
آہیں نغموں کی صداؤں میں نکھر جاتی ہیں
شام لو دیتی ہوئی یاس کی رعنائی میں
کون آتا ہے خیالوں کے سوا اس گھر میں
کس کو آنا ہے یہاں کون یہاں آئے گا
شام سے بات بناتے ہوئے دن کا ڈھلنا
رات کا شام سے رنگین کہانی سننا
رات کی نیند سے ہوتی ہوئی چیما گوئی
پیکر نیند کا ٹوٹا ہوا السایا بدن
روز ہوتا ہے یوں ہی مدتیں گزریں لیکن
کاش ایسا ہو کبھی نیند نہ کروٹ بدلے
اور تم دستکیں دیتے رہو ہم آئے ہیں
نظم
اور تم دستکیں دیتے رہو
مونی گوپال تپش