EN हिंदी
اور پھر یوں ہوگا | شیح شیری
aur phir yun hoga

نظم

اور پھر یوں ہوگا

محمد علوی

;

ہاں یہ آخری صدی ہے
اس کے اختتام پر

یہ زمیں
سورج کی گرفت سے نکل کر

اندھیروں میں ڈوبتی چلی جائے گی
اور کسی تاریک سیارے سے ٹکرا کر

ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی!
اور پھر یوں ہوگا

زمیں کے اک ٹکڑے پر
اک درخت ہوگا

اور اس کی چھاؤں میں
اک بھائی

اور اک بہن
اک دوسرے سے لپٹ کر

سو رہے ہوں گے
اور شیطان

ان کے تلوے چاٹ رہا ہوگا
اور زمیں کا وہ ٹکڑا

اک نئے سورج کے گرد
چکر کاٹ رہا ہوگا!!