آؤ آ جاؤ قریب آؤ
کہ کچھ بات بنے
اتنی دوری ہے کہ آواز پہنچتی ہی نہیں
میں کسی غیر زباں کے الفاظ
اپنے اشعار میں شامل تو نہیں کرتا ہوں
دکھ تو اس بات کا ہے تم یہ سمجھتے ہی نہیں
میرے سینے میں مچلتا ہے
تمہارا دکھ بھی
میرے الفاظ میں شامل ہے تمہاری آواز
میرے جذبات میں خفتہ ہیں
تمہارے جذبات
میں جو اد پر ہوں تو بس ایک ہی مقصد ہے مرا
فرش سے عرش کا کچھ رابطہ باقی تو رہے
میں ہوں جس زینے پہ
تم اس پہ نہیں آ سکتے
اور میں نیچے بہت نیچے نہیں جا سکتا
یہ تفاوت تو ازل ہی سے ہے قائم
لیکن
تم کبھی اتنے گراں گوش نہ تھے
سیڑھیاں جتنی بھی اوپر جائیں
پاؤں تو ان کے زمیں سے ہی لگے رہتے ہیں
اک ذرا قرب سماعت کے لیے
کتنے ہی زینے میں اترا ہوں تمہاری خاطر
جھاڑ کر اپنے بند کی مٹی
چند زینے ہی سہی
تم بھی تو اوپر آؤ
اور نیچے نہ اتارو مرے سامع مجھ کو
نظم
اور نیچے نہ اتار و مرے سامع مجھ کو
ظہیر صدیقی