EN हिंदी
اور میں چپ رہا | شیح شیری
aur main chup raha

نظم

اور میں چپ رہا

فاروق نازکی

;

میرے ہاتھوں سے میری چتا بن گئی
میرے کاندھوں پہ میرا جنازہ اٹھا

نوک مژگان سے قرطاس ایام پر
میرے خوں سے مرا نام لکھا گیا

اور میں چپ رہا
میرے بازار کوچے مرے بام و در

میری ناداریوں سے سجائے گئے
میرے افکار میری متاع ہنر

میری محرومیوں سے بسائے گئے
اور میں چپ رہا

میری تقدیر کا جو بھی خاکہ بنا
پیلے موسم کے پتوں پہ لکھا گیا

میری تصویر مجھ سے چھپائی گئی
مجھ کو نادیدہ خوابوں میں دیکھا گیا

اور میں چپ رہا
میرے الفاظ معنی کی تلوار سے

سر بریدہ ہوئے گنگناتے رہے
میرے نغمے گداؤں میں بانٹے گئے

برگزیدہ ہوئے گنگناتے رہے
اور میں چپ رہا

مجھ سے میری تمنا کے گل چھین کر
زرد موسم نے جشن بہاراں کیا

برف میرے نشیمن پہ آ کے گری
دھوپ نکلی تو اس کو ہراساں کیا

اور میں چپ رہا
میرے سر سبز جنگل اجاڑے گئے

میری جھیلوں میں اجگر بسائے گئے
کوہ ماراں کی تقدیس لوٹی گئی

بے حسی کے مقابر سجائے گئے
اور میں چپ رہا