EN हिंदी
اور کچھ چارہ نہیں | شیح شیری
aur kuchh chaara nahin

نظم

اور کچھ چارہ نہیں

صادق

;

مانس کی فصلیں
جواں ہو کر

پریشاں ہو گئی ہیں
ہوا کی سلطنت میں

ہلتے رہنے کے علاوہ
اور کچھ چارہ نہیں ہے

کر کے تخلیق بتا دو لوگو
مانس کے پیڑ لگا دو لوگو

چھین لو ساری چمک ہاتھوں سے
اور پھر ان میں عصا دو لوگو

جب بھی طوفاں کوئی اٹھنا چاہے
ریت میں اس کو دبا دو لوگو

تنگ تہہ خانوں سے باہر نکلو
کائناتوں کو صدا دو لوگو

ورنہ تم کو یہ دبوچے گا ابھی
خوف کو چیخ بنا دو لوگو

خشک پیڑوں کی کتھائیں سن لو
ان میں پھر آگ لگا دو لوگو