EN हिंदी
اٹوٹ انگ | شیح شیری
aTuT ang

نظم

اٹوٹ انگ

اظہر غوری

;

مرا سر تم اپنے ہی زانو پہ رکھ کر
مجھے پوچھتی ہو!

کہ میں کون ہوں
کیا ہوں، کیسے ہوں؟

سارے سوالوں کو مٹھی میں رکھ کر
ذرا میری اک بات سن لو

سنو! یہ تمہارے بدن کا خمار آشنا کیف۔۔۔ نرم و مسلسل
مجھے لذتوں کے عمق میں لیے جا رہا ہے

میں پل پل کبھی
لحظہ لحظہ کبھی

دھیرے دھیرے کبھی
لمحہ لمحہ کبھی

ایک دریا کے پھیلاؤ میں ڈوبتا جا رہا ہوں
شرابور طوفان میں تند لہروں کی صورت

نشیلے سمے
ایک آہنگ کے ساتھ ہچکولے کھاتا ہوا

میں کسی سوچ کی رو میں بہتا چلا جا رہا ہوں
مرا دل، مری جاں:

دونوں ہی موسوم ہیں، اس تموج سے
جو میری نس نس میں پیہم مچلتا ہوا

خون کے زیر و بم کی کہانی سناتا ہوا
بہہ رہا ہے

کہ جس کے ہر ایک لمس کی
لذتوں، ذائقوں میں

تمہارا کوئی خواب ہے
جیسے مہتاب ہے

تم تو میرے بدن کا کوئی پارۂ خاک ہو
تم کوئی غیر ہو؟

میری ہم زاد!
ہم کشتیٔ زیست کے بادباں کی طنابیں ہیں دو

ایک تم، ایک میں
جن کا محتاج ہے بادبان نفس

یہ زمیں، یہ زماں
میرے ہی عہد کی داستاں

ہم سے آباد دائم بساط جہاں
اپنے آنگن کی پھولوں بھری کیاریاں