EN हिंदी
اسیری | شیح شیری
asiri

نظم

اسیری

محمد انور خالد

;

دن بادل ہے اپنی رو میں چلتا ہے
رات آنگن ہے اپنے اندر کھلتی ہے

جس آن تم اس مٹی پر یا مٹی میں آئے تھے
وہ دن تھا رات تھی

یا دن رات سے ملنے کی ایک ازلی ابدی کوشش تھی
یا سورج چاند گہن تھا

یا پکی پوری بارش تھی
دن بادل بارش رات گہن

اک گھر اور ایک اسیر
اب رات کے خواب سے مت ڈرنا

اور دن کے غم میں مت سونا
اب ہنسنا اور ہنستے میں مر جانا

جیسے اکثر مرنے والے سوتے میں مر جاتے ہیں
اب ہنسنا اور ہنستے میں مر جانے سے مت ڈرنا

اس آن سے کیا ہر آن یہی
دن بادل بارش رات گہن

اک گھر اور ایک اسیر