نہ لذتوں کا بحر تھا نہ خواہشوں کی وادیاں
نہ دائرے عذاب کے نہ زاویے ثواب کے
بس ایک روشنی اسیر ذات تھی
محیط کائنات تھی ازل سے بے لباس تھی
تو یوں ہوا کہ دفعتاً
مرے بدن کے پیرہن میں چھپ گئی
تو لذتوں کا بحر موج زن ہوا
تو خواہشوں کی وادیاں سلگ گئیں
تو دائرے عذاب کے پھسل گئے
تو زاویے ثواب کے مچل گئے
عجیب واقعہ نہیں
مرے بدن کا پیرہن تو لذتوں کے تار میں بنا گیا
وہ خواہشوں کے بحر میں جو موج موج بہہ گیا
تو کیا ہوا
یہ راز راز رہ گیا
وہ روشنی جو قبل ارتکاب ہی
مرے بدن کے پیرہن میں جاگزیں تھی
صد ارتکاب کیوں ہوئی نہیں
نظم
اسیر ذات روشنی
ظہیر صدیقی