EN हिंदी
اثاثہ | شیح شیری
asasa

نظم

اثاثہ

ساحل احمد

;

کیوں تم نے پلکوں پر
اتنی ساری یادیں یکجا کر لی ہیں

ان یادوں کو تہ میں پتلیوں کے
رکھ دو

تاکہ یادیں رسوائی کی گرد سے
میلی نہ ہو جائیں

یادیں اثاثہ ہیں گزرے لمحوں کی
ان گزرے لمحوں کو

حال کے لمحوں میں مدغم کر دو
خود کو خود میں ضم کر دو

یادوں کو بوجھ سمجھ کر مت جھٹکو
ان کو بے پردہ کرنے کی عادت ترک کرو

وہ تو سرمایہ ہیں
انمول اثاثہ ہیں