EN हिंदी
عرابچی سو گیا ہے | شیح شیری
arabchi so gaya hai

نظم

عرابچی سو گیا ہے

نصیر احمد ناصر

;

عرابچی سو گیا ہے
طولانی فاصلوں کی

تھکن سے مغلوب ہو گیا ہے
خبر نہیں ہے اسے کہاں ہے

بس ایک لمبے کٹے پھٹے
ناتراش رستے پہ چوبی گاڑی

ازل سے یوں ہی
ابد کی جانب رواں دواں ہے

ذرا سے جھٹکے سے
چرچراتی ہے جب

تو بوسیدگی کی لاکھوں تہوں میں لپٹا
ہر ایک ذی روح چونکتا ہے

عرابچی خواب دیکھتا ہے
وہ شاہ زادی کا ہاتھ تھامے

سنہری رتھ میں سوار ہو کر
عجب جہانوں میں شبہ زمانوں میں

کھو گیا ہے
عرابچی سو گیا ہے.....!