عرابچی سو گیا ہے
طولانی فاصلوں کی
تھکن سے مغلوب ہو گیا ہے
خبر نہیں ہے اسے کہاں ہے
بس ایک لمبے کٹے پھٹے
ناتراش رستے پہ چوبی گاڑی
ازل سے یوں ہی
ابد کی جانب رواں دواں ہے
ذرا سے جھٹکے سے
چرچراتی ہے جب
تو بوسیدگی کی لاکھوں تہوں میں لپٹا
ہر ایک ذی روح چونکتا ہے
عرابچی خواب دیکھتا ہے
وہ شاہ زادی کا ہاتھ تھامے
سنہری رتھ میں سوار ہو کر
عجب جہانوں میں شبہ زمانوں میں
کھو گیا ہے
عرابچی سو گیا ہے.....!
نظم
عرابچی سو گیا ہے
نصیر احمد ناصر