EN हिंदी
اپنی تلاش میں نکلے | شیح شیری
apni talash mein nikle

نظم

اپنی تلاش میں نکلے

سعید نقوی

;

بہت گمان ہے اپنے وجود کا مجھ کو
مگر کوئی بھی حقیقت عیاں نہیں مجھ پر

خزاں رسیدہ کسی برگ ناتواں کی طرح
گمان یہ کہ سفر میرے اختیار میں ہے

مجھے تو یہ بھی نہیں علم کیا ہے میری ذات
میں جس کو ڈھونڈ رہا ہوں وہ کون ہے کیا ہے

وہ چاہتا ہے اسے ڈھونڈ لوں اگر میں بھی
کوئی نشان کوئی روشنی تو لازم ہے

تو اس حقیقت مخفی کو جاننے کے لیے
چلو خدا سے کوئی بات کر کے دیکھتے ہیں

اگر یہ پردہ نشینی ہی باقی رکھنی ہے
اگر تلاش کا یہ امتحان جاری ہے

تو میرے دیدۂ شب کے سکون کی خاطر
عطا کرے کوئی حکمت کوئی ہنر ایسا

کہ جب میں جاگوں
تو اصحاب کہف کی مانند

نہ کوئی پردہ نہ ابہام ہو مرے آگے
وہ وقت آئے کہ مجھ سے وہ ذات کھل جائے

مرے نصیب سے اک آگہی کا دور ملے
مرے وجود سے یہ کائنات کھل جائے

چلو اسی سے پتہ اس کا پوچھ لیتے ہیں
چلو خدا سے کوئی بات کر کے دیکھتے ہیں