اے شمع جوشؔ و مشعل ایوان آرزو
اے مہر ناز و ماہ شبستان آرزو
اے جان درد مندی و ایمان آرزو
اے شمع طور و یوسف کنعان آرزو
ذرے کو آفتاب تو کانٹے کو پھول کر
اے روح شعر سجدۂ شاعر قبول کر
دریا کا موڑ نغمۂ شیریں کا زیر و بم
چادر شب نجوم کی شبنم کا رخت نم
تتلی کا ناز رقص غزالہ کا حسن رم
موتی کی آب گل کی مہک ماہ نو کا خم
ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو
کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو
ہوتا ہے مہ وشوں کا وہ عالم ترے حضور
جیسے چراغ مردہ سر بزم شمع طور
آ کر تری جناب میں اے کار ساز نور
پلکوں میں منہ چھپاتے ہیں جھینپے ہوئے غرور
آتی ہے ایک لہر سی چہروں پر آہ کی
آنکھوں میں چھوٹ جاتی ہیں نبضیں نگاہ کی
رفتار ہے کہ چاندنی راتوں میں موج گنگ
یا بھیرویں کی پچھلے پہر قلب میں امنگ
یہ کاکلوں کی تاب ہے یہ عارضوں کا رنگ
جس طرح جھٹپٹے میں شب و روز کی ترنگ
روئے مبیں نہ گیسوئے سنبل قوام ہے
وہ برہمن کی صبح یہ ساقی کی شام ہے
آواز میں یہ رس یہ لطافت یہ اضطرار
جیسے سبک مہین رواں ریشمی پھوار
لہجے میں یہ کھٹک ہے کہ ہے نیشتر کی دھار
اور گر رہا ہے دھار سے شبنم کا آبشار
چہکی جو تو چمن میں ہوائیں مہک گئیں
گل برگ تر سے اوس کی بوندیں ٹپک گئیں
جادو ہے تیری صوت کا گل پر ہزار پر
جیسے نسیم صبح کی رو جوئے بار پر
ناخن کسی نگار کا چاندی کے تار پر
مضراب عکس قوس رگ آبشار پر
موجیں صبا کی باغ پہ صہبا چھڑک گئیں
جنبش ہوئی لبوں کو تو کلیاں چٹک گئیں
چشم سیاہ میں وہ تلاطم ہے نور کا
جیسے شراب ناب میں جوہر سرور کا
یا چہچہوں کے وقت تموج طیور کا
باندھے ہوئے نشانہ کوئی جیسے دور کا
ہر موج رنگ قامت گل ریز رم میں ہے
گویا شراب تند بلوریں قلم میں ہے
تجھ سے نظر ملائے یہ کس کی بھلا مجال
تیرے قدم کا نقش حسینوں کے خد و خال
اللہ رے تیرے حسن ملک سوز کا جلال
جب دیکھتی ہیں خلد سے حوریں ترا جمال
پرتو سے تیرے چہرۂ پرویں سرشت کے
گھبرا کے بند کرتی ہیں غرفے بہشت کے
چہرے کو رنگ و نور کا طوفاں کئے ہوئے
شمع و شراب و شعر کا عنواں کئے ہوئے
ہر نقش پا کو تاج گلستاں کئے ہوئے
سو طور اک نگاہ میں پنہاں کئے ہوئے
آتی ہے تو چمن میں جب اس طرز و طور سے
گل دیکھتے ہیں باغ میں بلبل کو غور سے
میرے بیاں میں سحر بیانی تجھی سے ہے
روئے سخن پہ خون جوانی تجھی سے ہے
لفظوں میں رقص و رنگ و روانی تجھی سے ہے
فقر گدا میں فر کیانی تجھی سے ہے
فدوی کے اس عروج پہ کرتی ہے غور کیا
تیری ہی جوتیوں کا تصدق ہے اور کیا
اے کردگار معنی و خلاق شعر تر
اے جان ذوق و محسنۂ لیلئ ہنر
کھل جائے گر یہ بات کہ اردو زبان پر
تیری نگاہ ناز کا احساں ہے کس قدر
چاروں طرف سے نعرۂ صل علیٰ اٹھے
تیرے مجسموں سے زمیں جگمگا اٹھے
میرے ہنر میں صرف ہوئی ہے تری نظر
خیمہ ہے میرے نام کا بالائے بحر و بر
شہرت کی بزم تجھ سے منور نہیں مگر
فرق گدا پہ تاج ہے سلطاں برہنہ سر
پروانے کو وہ کون ہے جو مانتا نہیں
اور شمع کس طرف ہے کوئی جانتا نہیں
دل تیری بزم ناز میں جب سے ہے باریاب
ہر خار ایک گل ہے تو ہر ذرہ آفتاب
اک لشکر نشاط ہے ہر غم کے ہم رکاب
زیر نگیں ہے عالم تمکین و اضطراب
باد مراد و چشمک طوفاں لئے ہوئے
ہوں بوئے زلف و جنبش مژگاں لئے ہوئے
تیرے لبوں سے چشمۂ حیواں مرا کلام
تیری لٹوں سے موجۂ طوفاں مرا کلام
تیری نظر سے طور بہ داماں مرا کلام
تیرے سخن سے نغمۂ یزداں مرا کلام
تو ہے پیام عالم بالا مرے لئے
اک وحئ ذی حیات ہے گویا مرے لئے
اے ماہ شعر پرور و مہر سخن وری
اے آب و رنگ حافظؔ و اے حسن انوریؔ
تو نے ہی ثبت کی ہے بصد ناز داوری
میرے سخن کی پشت پہ مہر پیمبری
تیری شمیم زلف کی دولت لئے ہوئے
میرا نفس ہے بوئے رسالت لئے ہوئے
در ہائے آب دار و شرر ہائے دل نشیں
شب ہائے تلخ و ترش و سحر ہائے شکریں
عقل نشاط خیز و جنون غم آفریں
دولت وہ کون ہے جو مری جیب میں نہیں
ٹکرائی جب بھی مجھ سے خجل سروری ہوئی
یوں ہے ترے فقیر کی جھولی بھری ہوئی
نغمے پلے ہیں دولت گفتار سے تری
پایا ہے نطق چشم سخن بار سے تری
طاقت ہے دل میں نرگس بیمار سے تری
کیا کیا ملا ہے جوشؔ کو سرکار سے تری
بانکے خیال ہیں خم گردن لئے ہوئے
ہر شعر کی کلائی ہے کنگن لئے ہوئے
اے لیلئ نہفتہ و اے حسن شرمگیں
تجھ پر نثار دولت دنیا متاع دیں
منسوب مجھ سے ہے جو بہ انداز دل نشیں
تیری وہ شاعری ہے مری شاعری نہیں
آوازہ چرخ پر ہے جو اس درد مند کا
گویا وہ عکس ہے ترے قد بلند کا
میرے بیاں میں یہ جو وفور سرور ہے
طاق سخن وری میں جو یہ شمع طور ہے
یہ جو مرے چراغ کی ضو دور دور ہے
سرکار ہی کی موج تبسم کا نور ہے
شعروں میں کروٹیں یہ نہیں سوز و ساز کی
لہریں ہیں یہ حضور کی زلف دراز کی
مجھ رند حسن کار کی مے خواریاں نہ پوچھ
اس خواب جاں فروز کی بیداریاں نہ پوچھ
کرتی ہے کیوں شراب خرد باریاں نہ پوچھ
بے ہوشیوں میں کیوں ہے یہ ہوشیاریاں نہ پوچھ
پیتا ہوں وہ جو زلف کی رنگیں گھٹاؤں میں
کھنچتی ہے ان گھنی ہوئی پلکوں کی چھاؤں میں
ہشیار اس لئے ہوں کہ مے خوار ہوں ترا
صیاد شعر ہوں کہ گرفتار ہوں ترا
لہجہ ملیح ہے کہ نمک خوار ہوں ترا
صحت زبان میں ہے کہ بیمار ہوں ترا
تیرے کرم سے شعر و ادب کا امام ہوں
شاہوں پہ خندہ زن ہوں کہ تیرا غلام ہوں
میں وہ ہوں جس کے غم نے ترے دل میں راہ کی
اک عمر جس کے عشق میں خود تو نے آہ کی
سویا ہے شوق سیج پہ تیری نگاہ کی
راتیں کٹی ہیں سائے میں چشم سیاہ کی
کیوں کر نہ شاخ گل کی لچک ہو بیان میں
تیری کمر کا لوچ ہے میری زبان میں
ترشے ہوئے لبوں کے بہکتے خطاب سے
زرتار کاکلوں کے مہکتے سحاب سے
سرشار انکھڑیوں کے دہکتے شباب سے
موج نفس کے عطر سے مکھڑے کی آب سے
بارہ برس تپا کے زمانہ سہاگ کا
سینچا ہے تو نے باغ مرے دل کی آگ کا
گرمی سے جس کی برف کا دیوتا ڈرے وہ آگ
شعلوں میں اوس کو جو مبدل کرے وہ آگ
لو سے جو زمہریر کا دامن بھرے وہ آگ
حد ہے جو نام نار سقر پر دھرے وہ آگ
جس کی لپٹ گلے میں جلاتی ہے راگ کو
پالا ہے قلب ناز میں تو نے اس آگ کو
نظم
اپنی ملکۂ سخن سے
جوشؔ ملیح آبادی