اگر میرے سینے میں خنجر اتارو
تو یہ سوچ لینا
ہوا کا کوئی جسم ہوتا نہیں ہے
ہوا تو روانی ہے
عمروں کے بہتے سمندر کی
لمبی کہانی ہے
آغاز جس کا نہ انجام جس کا
اگر میرے سینے میں خنجر اتارو
تو یہ سوچ لینا
ہوا موت سے ماورا ہے
ہوا ماں کے ہاتھوں کی تھپکی
ہوا لوریوں کی صدا ہے
ہوا ننھے بچوں کے ہونٹوں سے
نکلی دعا ہے
نظم
اپنے قاتل کے لیے ایک نظم
نصیر احمد ناصر