میں تڑپتا ہوں
میں بہت تڑپتا ہوں
کہ وہاں لوٹ جاؤں جہاں سے میری عمر شروع ہوئی تھی
جہاں میرے دن رات میری مٹی کی مہک سے مہکتے تھے
زمین بھر کی دھوپ میں سے میرے حصہ کی دھوپ
میرے روم روم کو سینکتی تھی
ستاروں بھرے آسمان میں سے میرے نام کا ستارہ
بدن کی اگنی بن کے میرے حصے کی دلہن کو
ندی کے پانی سے بنی ہوئی سیج پہ اتارتا تھا
اور ان دیکھی تہہ میں تیرتی مچھلیوں کی سانس کو سنگیت کر دیتا تھا
رات میں چھپے ہوئے دن کو
اور دن میں چھپی ہوئی رات کو
ایک دوسرے کے پاس لا کے خود کہیں چھپ جاتا تھا
پھر جھاگ سے جھاگ نکلتا تھا
اور جھاگ سے ان گنت مورتیاں بنتی تھیں
تب انہیں پوجنے کی تجارت ایجاد نہیں ہوئی تھی
تب آگ ہری گھاس کو نہیں جلاتی تھی
سوائے اس کے کہ پاؤں پر رینگتی ہوئی چیونٹی ہاتھ کی پکڑ میں آ جاتی تھی
کائنات بھر کی بھوک اور پیاس کی
سینچائی کرتے ہوئے کسان اور کھدائی کرتے ہوئے مزدور
ابھی کھیت اور فصل اور کچے پکے گھر اور دیواروں اور جیون مرن
اور شمشان بھوم اور قبروں سے پہچانے تو جاتے تھے
ابھی بازاروں میں گھومتے پھرتے ننگے پاگلوں
اور ان کے حصے کی گالیوں اور پتھروں کی پہچان سے زندگی کی پہچان تو ہوتی تھی
ابھی رات کے سفر میں کسی ان دیکھے جہان سے
میری دنیا کے جنگلوں میں اترتے جگنوؤں کے جھنڈ چہک چہک کے
سدھاری ہوئی روحوں کا عطا پتا بتاتے تھے
افسوس اب میں وہاں لوٹنا چاہوں بھی
تو خود پر اتنا گزر چکا ہوں کہ لوٹ نہیں سکتا
نظم
اپنے جیسے عاشقوں کے نام
احمد ہمیش