صداقتوں کے جنوں کا
ہم ایسا آئینہ ہیں
جو اپنے عکسوں کا مان کھو کر
شکستگی کا عذاب سہنے میں مبتلا ہے
ہم ایسے طوفاں کا ماجرا ہیں
جو ٹوٹتے پھوٹتے چٹختے سے
اپنے اعصاب کے بکھرنے کی آس میں ہیں
جو تشنہ لب ساحلوں کی مانند
اپنے دریا کی پیاس میں ہیں
جو دشت امکان کی ہواؤں کی
برگزیدہ مگر دریدہ لباس میں ہیں
نظم
اپنے دریا کی پیاس
فارغ بخاری