EN हिंदी
اپنے دریا کی پیاس | شیح شیری
apne dariya ki pyas

نظم

اپنے دریا کی پیاس

فارغ بخاری

;

صداقتوں کے جنوں کا
ہم ایسا آئینہ ہیں

جو اپنے عکسوں کا مان کھو کر
شکستگی کا عذاب سہنے میں مبتلا ہے

ہم ایسے طوفاں کا ماجرا ہیں
جو ٹوٹتے پھوٹتے چٹختے سے

اپنے اعصاب کے بکھرنے کی آس میں ہیں
جو تشنہ لب ساحلوں کی مانند

اپنے دریا کی پیاس میں ہیں
جو دشت امکان کی ہواؤں کی

برگزیدہ مگر دریدہ لباس میں ہیں