آج کل اکثر ایسا پاتا ہوں
اپنے اشعار بھول جاتا ہوں
کیا بحر تھی وہ کیا ترنم تھا
اشک تھا کوئی یا تبسم تھا
کیفیت کیا تھی اور کیا احساس
جن سے ہوتا تھا خودی کا احساس
جن کو میں جاوداں سمجھتا تھا
اپنے دونوں جہاں سمجھتا تھا
اب وہی شعر بھول جاتا ہوں
آج کل اکثر ایسا پاتا ہوں
ایسا کیوں ہو گیا اگر سوچوں
کوئی واجب وجہ اگر کھوجوں
ایسا محسوس ہونے لگتا ہے
شعر خود کو وہ یاد رہتا ہے
جو کسی اور کو بھی یاد رہے
ہونٹھ پہ نہ ہو مگر دل میں بسے
ایسا ممکن تو ہے مگر بس تب
کسی لمحہ میں خود کو بھول کے جب
خود کو دریا دلی سے بانٹا ہو
میرا میں اور کسی کا حصہ ہو
یوں کیا ہی نہیں تو کیا فریاد
اپنی ہی قید میں رہا آباد
فکر کی اصلی بات یہ ہے مگر
ان دنوں یوں بھی ہوا ہے اکثر
شعر اوروں کے بھول جاتا ہوں
کیا میں پہلے کی طرح زندہ ہوں
نظم
اپنے اشعار بھول جاتا ہوں
اشوک لال