EN हिंदी
اپنے اپنے سوراخوں کا ڈر | شیح شیری
apne apne suraKHon ka Dar

نظم

اپنے اپنے سوراخوں کا ڈر

عباس اطہر

;

''نئی سڑکوں کے نقشے'' کارخانے
اونچے اونچے پل مرے منصوبے دیکھو اور کتابوں میں پڑھو''

اس نے کہا۔۔۔ ''میرے بدن پر ہاتھ بھی پھیرو
مگر سوراخ سے انگلی الگ رکھو''

مگر اس کے بدن پر ہر طرف سوراخ ہی سوراخ ہیں
انگلی الگ رکھو!

تو کیا میں انگلیوں کو توڑ دوں؟
میں انگلیوں کو توڑ دوں؟

پھر کون تیرے حسن کی تفسیر لکھے گا؟ بتا!
پھر یہ تسلسل رات دن کا

چاند سورج کا اکیلے موسموں کا
مسئلوں اور مشکلوں کا

کیسے ٹوٹے گا؟ بتا!
اس نے ہمیں ایک دوسرے سے چھپ کے رہنے کے لئے

کپڑے دیئے اور خوب صورت گھر دیے
اور بند کمروں میں زمینوں آسمانوں کی سبھی سچائیاں کہنے اور ان

پر بحث کرنے اور منصوبے بنانے کی کھلی آزادی دی
یارو! چلو سڑکوں پہ ننگے سیر کرنے جائیں

شاید رسم چل نکلے
مگر میرے قبیلے کا کوئی بھی مرد

کپڑے پھاڑ کر گھر کو جلا کے
ننگی ننگی باتیں کہنے کے لئے باہر نہ نکلا

سب کو اپنے اپنے سوراخوں کا ڈر تھا