جسموں کے کھو جانے
اور رویوں کے بدلنے کے کرب نے مجھے تمام عمر
اندیشۂ ضیاع میں ہی مبتلا رکھا
کل کے دن نے مجھ میں بسے سب خوف مار دئے
چہرے سے نقاب اترا تو سچائی سینہ تانے میرے سامنے آ کھڑی ہوئی
خود سے بچھڑی ہوئی تھی اب خود سے آ ملی ہوں
میرا سایہ مجھ میں نو پھٹا ہو کر جاگ گیا ہے اور
وہ میرا ہاتھ تھامے بیٹھا ہے
اب وہی مورپنکھ وہی جھیل وہی مرغابی کے بچے
اخروٹ کھاتی گلہری اور رنگ بکھیرتی تتلی
میرا سایہ
یہی سب مردہ مناظر کو میرے اندر حنوط کر کے بیٹھ گیا ہے
اب اپنے ہی سائے کی پناہ میں ہوں
جس کے نہ بدلنے کا ڈر نہ بچھڑنے کا وہم
ایک سا بس مجھ میں ہی رہے گا
میرا ہی رہے گا
اس لئے
اب تنہائی سے ڈر نہیں لگتا
اب جدائی سے ڈر نہیں لگتا
اب میں اپنی پناہ میں ہوں
نظم
اپنا سایہ
روبینہ فیصل