تہہ در تہہ جنگل کے اندر
اس کا اک چھوٹا سا گھر تھا
اور خود جنگل
شب کے کالے ریشم کے
اک تھان کے اندر
دبا پڑا تھا
چر مر سی آواز بنا تھا
اور شب
گورے دن کے
مکڑی جال میں جکڑی
اک کالی مکھی کی صورت
لٹک رہی تھی
میں کیا کرتا
مجبوری سی مجبوری تھی
میں نے خود کو
گھر چھپر میں
الٹا لٹکا دیکھ لیا تھا
کتنی ہی گرہوں میں جکڑا
دیکھ لیا تھا
مکڑی جانے کہاں گئی تھی
اپنی تہوں کے اندر شاید
پھنسی ہوئی تھی
میں کیا جانوں
نظم
عنکبوت
وزیر آغا