دم وصال نگاہوں میں ہجر کا منظر
مثال گردش آئینہ
ایسے بولتا ہے
کہ جیسے کوچۂ خاک وجود کے اندر
غبار نیند کا حیرت کے راز کھولتا ہے
میں جاگتا ہوں
مگر شہر میرے ساتھ نہیں
ہوا نے بام پہ رکھے دئیے بجھائے ہیں
شب سیاہ نے
ہم سب کے دل دکھائے ہیں
میں بے کنار سے رستے پہ پاؤں پاؤں چلا
کنارۂ مہ و انجم کی سمت کھو بیٹھا
مرے حلیف
مجھے روح کی اماں دے کر
دعا کے دشت میں مجھ کو اکیلا چھوڑ گئے
برہنگی مرے چہرے کو ڈھانپنے آئی
الجھ رہے ہیں مرے خواب میری آنکھوں سے
میں اونگھتا ہوں
کہ شاید وہ دن پلٹ آئیں
کہ جن کے پاس امانت ہے میری چارہ گری
میں منتظر ہوں کہ شاید
بوقت قرب سحر
مری جبیں پہ اجالے کا داغ بن جائے
حصار چشم میں
آنسو چراغ بن جائے!
نظم
انیسؔ ناگی کے نام
زاہد مسعود