چھپاؤں کیوں نہ دل میں خاتم گوہر نگار اس کی
یہی لے دے کے میرے پاس ہے اک یادگار اس کی
یہ تنہائی میں میرے لب تک آ کر مسکراتی ہے
اور اپنی مالکہ کی طرح دل کو گدگداتی ہے
قلم کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہر وقت رہتی ہے
اور اس کے دست رنگیں کے فسانے مجھ سے کہتی ہے
طلائی انگلیوں کا جب مجھے قصہ سناتی ہے
تصور میں ستاروں کے سے پیکر کھینچ لاتی ہے
مری سلمیٰؔ کو اس نے شاد اور ناشاد دیکھا ہے
گہے مسرور گاہے مائل فریاد دیکھا ہے
اسے معلوم ہیں اچھی طرح بیتابیاں اس کی
نہیں پوشیدہ اس کی آنکھ سے بے خوابیاں اس کی
شب تنہائی میں اس نے اسے بے دار پایا ہے
اور اکثر دیدۂ سرشار کو خوں بار پایا ہے
اسے معلوم ہے وہ کس طرح مغموم رہتی تھی
کسی کے غم میں لطف زیست سے محروم رہتی تھی
مرا خط پڑھ کے وہ کس کس ناز سے مسرور ہوتی تھی
پھر اپنی بے بسی پر کس طرح رنجور ہوتی تھی
یہ شاہد ہے کہ اس کی شام غم کیوں کر گزرتی تھی
یہ شاہد ہے کہ وہ رو رو کے کیوں کر صبح کرتی تھی
وہ جب دل تھام لیتی تھی ہجوم غم سے گھبرا کر
تو یہ کرتی تھی اس کی غم گساری دل کے پاس آ کر
اسے معلوم ہے جو درد تھا اس پاک سینے میں
بسی ہیں اس کے دل کی دھڑکنیں اس کے نگینے میں
پہنچتی ہیں شعاعیں اس کی جس دم چشم حیراں تک
تصور مجھ کو لے اڑتا ہے سلمیٰؔ کے شبستاں تک
جہاں سلمیٰؔ کے اور میرے سوا ہوتا نہیں کوئی
انگوٹھی کھوئی جاتی ہے مگر کھوتا نہیں کوئی
نظم
انگوٹھی
اختر شیرانی