EN हिंदी
اندھیرا | شیح شیری
andhera

نظم

اندھیرا

پریہ درشی ٹھا کرخیال

;

ابھی روشن ہے یہ چراغ
تو یہ نہ سمجھو

کی اب اندھیرے کا
کوئی وجود ہی نہ رہا

کی وہ
روشنی کی تلوار سے کاٹ کر

میرا جا چکا ہے
اس دھوکے میں نہ رہنا

کی وہ ہمیشہ کی لیے
خریدہ جا چکا ہے

اس نے تو بس اک چالاک اور شاطر
سپاہ سالار کی طرح

اپنی پہلی ہار کو
پہلی بازی جیتنے والے دشمن کی

جگمگاہٹی وردی میں چھپا لیا ہے
اور اس کے خیمے میں

اس طرح گھل مل گیا ہے
جیسے اب اس کا اپنا کوئی وجود نہ ہو

لیکن دراصل وہ
سمایا ہوا ہے انہیں اجالوں کی ذات میں

اس چراغ کی جلنے کی وجہ بن کر
یہیں کہیں

اسی رات میں
بڑے صبر سے اس گھات میں

کہ کب یہ لو پڑے مدھم
اور وہ ٹوٹ پڑے

اک شہباز کی مانند
اپنے سیاہ ڈائنے پھیلائے

اور غنیمت کے کمزور فاخطے کو
اپنے چنگل میں دبوچ لے جائے

میری بات کا یقین نہ آئے
تو چند لمحوں کے لیے

کوئی یہ چراغ یہاں سے لے جائے
ابھی روشن ہے یہ چراغ

تو آندھیوں سے بچاؤ اسے
یہ نے سمجھاؤ کہ اب اندھیرے کا

کوئی وجود ہی نہ رہا