EN हिंदी
اندھا سفر | شیح شیری
andha safar

نظم

اندھا سفر

فاروق مضطر

;

جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں
آوارہ یہ لوگ

چہرہ چہرہ گرد گرد
دست و پا درماندگی

جانے کب تک لوگ چلتے رہیں گے
اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ