جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں
آوارہ یہ لوگ
چہرہ چہرہ گرد گرد
دست و پا درماندگی
جانے کب تک لوگ چلتے رہیں گے
اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ

نظم
اندھا سفر
فاروق مضطر
نظم
فاروق مضطر
جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں
آوارہ یہ لوگ
چہرہ چہرہ گرد گرد
دست و پا درماندگی
جانے کب تک لوگ چلتے رہیں گے
اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ