تیرے غم میں کتنا نازک ہو گیا ہے دل کہ اب
اس بھرے بازار میں
ہر صدا اک اجنبی احساس کا آئینہ ہے
آج تیرے غم سے فارغ ہو کے میں
بہہ رہا ہوں لذت اظہار کے سیلاب میں
لڑکھڑاتے رینگتے لنگڑاتے ہنستے بولتے
لفظ اور ان کا دھواں خوشبو چمک
چل رہے ہیں مل کے بے آہنگ آوازوں کے رنگ
اجنبی ہونٹوں کے لفظ
آرزؤں کے غبارے حسرتوں کی تتلیاں
چار سو اڑتی ہیں میں خاموش ہوں
گفتگو کے دائروں میں پھیل کر
رنگ بھرتا جا رہا ہے ان تمناؤں کا خوں
جن کے لفظوں نے زباں دی سننے والوں کا خیال
ان میں ڈوبا جا رہا ہے بولتے لفظوں کا سحر
اس کو اپنے دام میں لاتا ہوا
پھیل کر آتا ہے مجھ تک پیچ و خم کھاتا ہوا
اور میں
اس کی کیفیت کا غازہ اپنے چہرے پر لگائے
اک نئی آواز کے سائے میں ہوں
چاہتا ہوں بند آنکھوں سے میں اس سیلاب میں
کود جاؤں اور نظارہ کروں
اپنے کانوں سے دلوں کے ترجماں الفاظ کا
صورت گویا سے بڑھ کر ہے سخن انداز کا
نقرئی آواز میں لفظوں کا نور
اپنے ہم راہی کے دل پر نغمہ بار
جیسے شبنم دامن گل پر گرے بے اختیار
اس صدا میں حرف ہیں یا موم کے آنسو ہیں جو
شمع کے پہلو میں گرتے جا رہے ہیں کیا کروں
آنکھیں کھولوں اور اس بچی کی صورت دیکھ لوں
اس صدا میں نخوت زر کا جلال
جیسے پربت سے گرے جھرنا کوئی
سنگ اسود کی چٹانیں توڑنا
دوست ہم سن ہم سخن
جن کے سادہ صاف سے انداز میں
کوئی ماضی کوئی مستقبل نہیں
حال کے لمحات رنگیں قہقہے پھولوں کے ہار
اور اس آواز میں
زیست کی محرومیاں زنجیر در زنجیر ہیں
کھولتے لفظوں کی بھاپ
دل کے آئینے کو دھندلاتی ہے ہاتھ
خود بخود بڑھتا ہے اپنی جیب کی جانب مگر
یہ گدا بھی تو نہیں
اور اس آواز میں حرص و ہوس کا زہر ہے
لفظ تیروں کی طرح اڑتے ہوئے
سینۂ احساس میں پیوست ہوتے ہیں مگر
دل سے نفرت کے سوا کوئی صدا اٹھتی نہیں
اور یہ آواز میری دوست دار دل تری آواز ہے
کتنے نغمے گونجتے ہیں کتنی راتوں کا خمار
کتنے رنگوں کا تلاطم کتنے پھولوں کی ہنسی
سرسراتے ریشمیں ملبوس کے مانند یہ تیری صدا
ڈھانپتی ہے گرمئی آغوش سے پرواز میں
کھو گئی ہیں ساری آوازیں تری آواز میں
نظم
انار کلی
یوسف ظفر