سانولی! تو مرے پہلو میں ہے
لیکن تری پیاسی آنکھیں
کبھی دیوار کو تکتی ہیں
کبھی جانب در دیکھتی ہیں
مجھ سے اس طرح گریزاں جیسے
انہیں مجھ سے نہیں دیوار سے کچھ کہنا ہے
یا یہ پنچھی ہیں جنہیں
ایک ہی پرواز میں اڑ جانا ہے
ہاتھ نہیں آنا ہے
(اے مری سانولی! ان آنکھوں کے دونوں پنچھی
گر اڑے بھی تو مرے دل کی طرف آئیں گے)
سانولی! مجھ کو تری آنکھوں نے
وہ فسانے بھی سنائے کہ جنہیں
کہنا چاہیں تو ترے ہونٹ فقط ''جی'' کہہ کر
اور افسانوں کو دہرانے لگیں
یا تو بیگانوں کی مانند مرے پاس سے گزرے
تو کبھی
میری طرف دیکھ کے چلنا بھی گوارا نہ کرے
لیکن آنکھوں میں چمک آ جائے
مصلحت ہونٹ تو سی لے مگر ان آنکھوں کو
کیسے خاموش رکھے کیسے انہیں سمجھائے
بات کرتی ہے تو آنکھیں نہیں ملنے دیتی
سانولی ڈرتی ہے دل نین جھروکوں میں نہ آئے
نظم
ان کہی
شہزاد احمد