EN हिंदी
ان کہی | شیح شیری
an-kahi

نظم

ان کہی

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

روز جب صبح کو
اپنے گھر سے نکلتا ہوا

راستے میں کوئی دوست مل جائے
یا جان پہچان والا

میں بڑی گرم جوشی سے اس کی طرف
بڑھ کے جاتا ہوں میں

آداب کرتا ہوں
اور مسکراتا بھی ہوں

جیسے میں آج کے دن
بہت خوش ہوں

اور گھر پہ سب خیریت ہے
مجھ کو ہر ہر قدم پر

کئی طرح کے لوگ ملتے ہیں
جو اونچی اونچی دکانوں پر بیٹھے ہوتے ہیں

کئی ایسے افراد
میں جانتا ہوں وہ کتنے غبی ہیں

مگر کرسیوں پر ڈٹے ہیں
انہیں لوگ

جھک جھک کے تسلیم کرتے ہیں
وہ لوگ جو ان سے بہتر ہیں

تہذیب و شائستگی
دانش و آگہی میں

مگر اس کو کیا کیجئے
ان کی قسمت میں وہ خاص کرسی نہیں ہے

کہ جس پر کوئی مسخرا بیٹھ جائے
تو اس کو کوئی مسخرا کہہ نہ پائے

مجھ کو محسوس ہوتا ہے
خود میرے اندر

کوئی بیٹھا ہوا
کہہ رہا ہے

جی میں آتا ہے
ان مسخروں پر ہنسوں

کھوکھلے آدمی جو بھی ہیں
ان سے کہہ دوں کہ تم کھوکھلے ہو

اپنی کرسی پہ بیٹھا ہوا کوئی احمق
اونٹ کی طرح سے بلبلائے

تو کہہ دوں کہ کیا بک رہے ہو!