میں کوئی خواب لکھوں کہانی میں بیتی کسی رات کا
کہکشاؤں کی نگری سے گزرے ہوئے
رات اوڑھے ہوئے اک حسین ساتھ کا
اس گگن کی کتھا بھی لکھوں
جس پہ نینوں کے جھلمل دئیے جگمگا اٹھے تھے
جس پہ بادل ہماری طرح کھلکھلا اٹھے تھے
جس پہ کہرے کی چادر تلے چاند چپ چاپ تھا
اور کہیں دور مرلی پہ بجتا کوئی ساز تھا
وہ جو خواہش سی بہتی ہوئی کاسنی نہر تھی
وہ جو آنکھوں سے کوسوں پرے ان چھوئی سحر تھی
ہاں وہی ہاں وہی ہاں وہی قہر تھی
مجھ کو بانہوں میں اپنے چھپائے ہوئے
برف کی سلوٹوں سے سرکتے ہوئے
دھند اوڑھے ہوئے
دودھیا روشنی سے پرے
چاند کی اوٹ میں
تیرے پہلو میں سمٹی ہوئی
رات خاموش تھی
میں بھی میرا کے جیسی کسی کرشن کی یوگنی تھی مگر
میں بھی نردوش تھی
نظم
ان چھوئی کتھا
انجیل صحیفہ