امی کی یہ جائے نماز مجھے دے دو
مجھے پتہ ہے
اس میں کتنی روشن صبحیں جذب ہوئی ہیں
کتنی سناٹی دوپہریں
اس کی سیون میں زندہ ہیں
مغرب کے جھٹ پٹ انوار کی شاہد ہے یہ
آخر شب کا گریہ
اس کے تانے بانے کا حصہ ہے
مجھے پتہ ہے
امی کے پاکیزہ سجدوں کی سرگوشی
اس کے کانوں میں زندہ ہے
اس کے سچے سچے سجدے
دیکھو کیسے چمک رہے ہیں
ان کے لمس کی خوشبو
کیسی پھوٹ رہی ہے
امی کی یہ جائے نماز بڑی دولت ہے
امی کی یہ جائے نماز مجھے دے دو
نظم
امی کی یاد میں
راشد جمال فاروقی