EN हिंदी
امی کی یاد میں | شیح شیری
ammi ki yaad mein

نظم

امی کی یاد میں

راشد جمال فاروقی

;

امی کی یہ جائے نماز مجھے دے دو
مجھے پتہ ہے

اس میں کتنی روشن صبحیں جذب ہوئی ہیں
کتنی سناٹی دوپہریں

اس کی سیون میں زندہ ہیں
مغرب کے جھٹ پٹ انوار کی شاہد ہے یہ

آخر شب کا گریہ
اس کے تانے بانے کا حصہ ہے

مجھے پتہ ہے
امی کے پاکیزہ سجدوں کی سرگوشی

اس کے کانوں میں زندہ ہے
اس کے سچے سچے سجدے

دیکھو کیسے چمک رہے ہیں
ان کے لمس کی خوشبو

کیسی پھوٹ رہی ہے
امی کی یہ جائے نماز بڑی دولت ہے

امی کی یہ جائے نماز مجھے دے دو