ہم نے دیکھے ہیں وہ یو ایس کے نرالے کتے
کاٹنے والے نہیں بھونکنے والے کتے
میری محبوبۂ مغرب نے بھی پالے کتے
میں سنبھالا نہ گیا اس نے سنبھالے کتے
سلسلے پیار کے حیوان سے جوڑے اس نے
میں تو انسان ہوں کتے بھی نہ چھوڑے اس نے
گود میں لے لیا میڈم نے پرایا کتا
کبھی چومی کبھی آنکھوں سے لگایا کتا
بیٹھنا تھا جہاں شوہر کو بٹھایا کتا
آیا ہزبینڈ تو کہنے لگیں آیا کتا
اس مدارات پہ شوہر کو بھی حرص آتی ہے
اپنے ہاتھوں سے وہ بلڈاگ کو نہلاتی ہے
ہر طرف کوچۂ دل دار میں ضم کتے ہیں
ظلم کوئی بھی ہو ارباب ستم کتے ہیں
ہم پہ کہتے ہیں امارت کا بھرم کتے ہیں
اور کتے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کتے ہیں
ہاتھ میں لے کے تب و تاب جہاں بانوں کی
رسیاں کھینچتے رہتے ہیں یہ انسانوں کی
ہائے وہ کتا شناسوں کی سیاسی چالیں
جو فقط اپنی بقا کے لیے کتے پالیں
ساتھ کتے کے وہ برگر کبھی پیزا کھا لیں
اور ہمیں دیکھتے ہی ایڈ کی ہڈی ڈالیں
ہم سے کہتے ہیں ذرا اور ہلاؤ دم کو
دم ہلانے کا سلیقہ نہیں آتا تم کو
ایک کتے نے کہا میں جو حسیں رہتا ہوں
کیوں سمجھتے ہو مجھے خاک نشیں رہتا ہوں
جہاں اے سی کی سہولت ہو وہیں رہتا ہوں
میں کوئی تیسری دنیا میں نہیں رہتا ہوں
مجھ کو کھانے میں جو خوراک یہاں ملتی ہے
وہ ترے ملک کے لوگوں کو کہاں ملتی ہے
ہیں مرے شہر کے کتے جو پرانے والے
وہ ہیں پنجوں سے مجھے زخم لگانے والے
ٹانگ الفاظ و معانی میں اڑانے والے
میری تخلیق کو دانتوں سے چبانے والے
ہر اشاعت پہ مری چونکتے رہ جاتے ہیں
میں گزر جاتا ہوں یہ بھونکتے رہ جاتے ہیں
نظم
امریکہ کے کتے
خالد عرفان